Society is on The Verge of Decline
معاشرہ زوال کے دہانے پر
(قلم کلامی:قاسم علی شاہ)
قوموں کی اجتماعی حالت ہی اس کی ترقی یا تنزلی کا فیصلہ کرتی ہے. ہم جس دور میں رہ رہے ہیں یہ ایک غیر متوقع صورت حال کا دورہے۔ جس میں ہر روز کوئی نہ کوئی حادثہ یا سانحہ رونما ہوتا ہے۔ حوادث یا سانحات دیگر ممالک میں بھی ہوتے رہتے ہیں لیکن جس شدت کے ساتھ ہمارے ملک کا میڈیاان کوپیش کرتا ہے اس سے ہر انسان ذہنی طورپر کرب میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ ہفتہ دس دِن تک ہر ایک کی زبان پر اس کاذِکر ہوتا ہے اور اس کے بعد وہ قصہ پارینہ بن جاتا ہے۔ اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ اگر لاء اینڈ آرڈر ٹھیک ہوجائے اور قانون مضبوط ہوجائے تو تمام جرائم کا خاتمہ ہوجائے گا, یہ بات درست ہے لیکن اس سے بھی ضروری بات یہ ہے کہ ہم ان پرورش گاہوں کی نشاندہی کریں جو جرائم پیدا کرتے ہیں اور برائی کی اصل جڑیں ہیں۔
بے مقصدیت
ہم اگر بغور جائزہ لیں کہ کن کن ممالک میں جرائم کی شرح کم ہے اور اس کی وجوہات کیا ہیں تو ایک بات ضرور واضح ہوتی ہے کہ وہاں پر لاء اینڈ آرڈر کا بھرپور نفاذ ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہاں لوگوں میں فرسٹریشن بڑھانے والے عوامل بھی کم ہیں، جبکہ ہمارے ہاں فرسٹریشن بڑھانے کے ذرائع اتنے زیادہ ہیں کہ جن کا شمار نہیں،جبکہ کچھ ایسے بھی ہیں جن کے بارے میں ہمیں معلوم ہی نہیں کہ وہ ہماری فرسٹریشن کو خطرناک حدتک بڑھارہے ہیں۔ ہمارا کلچر بیمار ہوچکا ہے اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ اس فرسٹریشن نے جہاں جوان نسل کو بے راہ روی پر مجبور کیا وہیں بڑی عمر کے لوگ بھی ایسی عادات میں ملوث ہوگئے جو اسلامی ثقافت اور تہذیب کے بالکل منافی ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ معاشرے میں موجود باصلاحیت افرادکی انرجی اور قابلیت کو استعمال نہیں کیا جارہا، انہیں مناسب میدان نہیں مل رہا، نتیجتاً وہ اپنی صلاحتییں غلط کاموں میں لگارہے ہیں۔
ایک انسان اگراپنے پورے دِن کا شیڈول بنالیتا ہے کہ اس نے آج کیا کیا کام کرنے ہیں،تو اب اگرکوئی بھی شخص آکر اس کے ساتھ خواہ مخواہ کی بدتمیزی کرتا ہے تو عقل مند انسان کبھی بھی اس کو جواب نہیں دے گا بلکہ وہ اپنے کاموں پر توجہ دے گا،کیونکہ اسے معلوم ہے کہ اگر وہ اس غیر ضروری بحث میں الجھ گیا تو اس کے بہت سارے کام ادھورے رہ جائیں گے۔چونکہ ہمارے ہاںمقصد یت کی کمی ہے اس لیے ہر دوسرا فرد بے فائدہ کی بحثوں اور کاموں میں مصروف نظر آتا ہے۔
ایک اور المیہ یہ ہے کہ بچوں کے پارک ختم ہوگئے ، تعلیمی اداروں میں ہم نصابی سرگرمیاں کم ہو گئیں اوربچوں کو ایک طرح سے مورچوں میں بند کرکے پڑھایا جانے لگاتو اب اس صورت حال میں ہم کیسے یہ امید کریں کہ وہ ’’Bgo‘‘ نہ کھیلیں ،وہ ٹک ٹاکرز نہ بنیں ،وہ فرسٹریشن کا شکار نہ ہوں،وہ غلط راستے پر نہ چلیں، FIAکے کیسز نہ بڑھیں،جنسی ہراساں کرنے والوں اور بلیک میلرز کی تعداد نہ بڑھے؟!!!
یہ سب کچھ ہوگا،کیونکہ معاشرے میں موجود تمام صحت مند سرگرمیاں جو کھیل ،ہم نصابی سرگرمیوں اور سب سے بڑھ کروالدین اور اپنوں کی شکل میں کتھارسس کے ذرائع تھے، سب کے سب چھِن لیے گئے۔
غلط تربیت جرم کرواتی ہے
ایک بچہ بالکونی سے لٹکا ہوا تھا اورعنقریب گرنے والا تھا۔نیچے پورا محلہ کھڑا بچاؤ بچاؤ کی چیخیں لگا رہا تھا۔وہیں ایک جوان بھی موجود تھا۔وہ چند لمحوں میں اوپر چڑھا ، بچے کواپنے بازووں میں تھاما اوراس کو نیچے لے آیا۔سب لوگوں نے تالیاں بجائیں اور پوچھا کہ آپ نے بچے کو کیسے بچالیا؟جوان بولا:
’’میں آرمی کمانڈو ہوں ،یہ کام تو میری روٹین کا حصہ ہے۔‘‘
اگرچہ یہ دوسرے لوگوں کے لیے ایک کھٹن کام تھا مگر چونکہ جوان کے بیک گراونڈ میں یہ تربیت موجود تھی اس لیے وہ بآسانی بچے کو بچا پایا۔
ایسے ہی معاشرے میں موجود مجرم اور بلیک میلر لوگوں کے پیچھے ان کی تربیت کارفرما ہوتی ہے۔ یہ ٹریننگ ان کو اس ماحول سے ملتی ہے جس میں ان کی جائز خواہشات پوری نہیں کی جاتیں، جب ان کو نظرانداز یا ان کی توہین کی جاتی ہے اور اوائل جوانی میں ان کے ساتھ ایسے مسائل پیش آتے ہیں جنہیں حل کرنا والدین کی ذمہ داری ہوتی ہے مگر والدین اپنا کردار ادانہیں کرپاتے تو پھر ایسے جوان معاشرے کے باغی بن جاتے ہیں۔
جب والدین اپنے بچوں کے مسائل پرانہیں مطمئن نہیں کریں گے تو پھر بچے دیوار پر لکھے گئے اشتہار کو ہی اپنا حل سمجھیں گے، وہ غلط لٹریچر کی طرف جائیں گے، اسکول کے اناڑی دوست ان کے مینٹور بن جائیں گے اورپھر غلط معلومات سے ان کا مستقبل برباد کریں گے۔ والدین جب بچوں کو درست سمت نہیں بتاتے تو پھردوسرا کوئی فردبھی انہیں جیسی سمت بتائے گا وہ اسی پر چلیں گے۔
فرسٹریشن کے بڑھتے ہوئے اسباب
خوشی یا اطمینان قلب کا معنی ہے ایسا واقعہ جس کی یاد بعد میں آپ کو خوشی و سرور دیتی ہے۔ فرسٹریشن کا معنی ہے ایسا واقعہ جس کی یاد بعد میں آپ کو پچھتاوا دیتی ہے اور آپ کو نادم کرتی ہے۔
ہم نے فرسٹریشن کے اسباب بڑھادیے ہیں۔ موبائل کی صورت میں کمیونیکیشن کے اس طوفان کو ہم نے نہیں سنبھالا ،جس نے ہماری زندگی کو جکڑ لیا اور ہم وہی کرنے لگ گئے جو ٹیکنالوجی ہم سے کرواتی ہے۔ انسان جتنا مرضی کامیاب بن جائے لیکن جب تک اس کے اندر ایمان ، اللہ پر بھروسا اور خوفِ خدا نہیں ہے تووہ ٹیکنالوجی کے یلغار سے نہیں بچ سکتا۔ بدقسمتی دیکھیے کہ ہم نے بچوں کو مہنگے اسکولز ، مہنگے نصاب اورقابل ترین ٹیوٹرز تودے دیے لیکن ایمان نہیں دیا، تربیت نہیں دی تو پھر ہم کیسے امید رکھیں کہ وہ ان فتنوں سے بچ جائیں گے؟
سوال یہ ہے کہ ماں باپ کے پاس بیٹھنا موبائل فون سے زیادہ خوش گوار کیوں نہیں ہے؟وجہ یہ ہے کہ ہم نے بچوں کو خود سے دور کیا ، انہیں موبائل کے حوالے کیا اور خود بھی موبائل پکڑ کر چیٹ کرنے لگ گئے۔ ہمیں معلوم ہی نہیں کہ پاس بیٹھا ہمارا اپنا بچہ کس دنیا میں غرق ہے، وہ کن مسائل کا شکار ہ، وہ کن دوستیوں میں پڑکراپنی دنیا بھی خراب کررہا ہے او رآخرت بھی۔ مہربانی کیجیے! اپنے بچوں کو جہنم کا ایندھن بننے سے بچائیے۔
ٹیکنالوجی ،انسان کامقصد نہیں ہے بلکہ مقصد کے ساتھ ٹیکنالوجی وابستہ ہے۔ ہر وہ انسان جس کا کوئی مقصد نہیں اور وہ ٹیکنالوجی کی طرف جاتا ہے تو ٹیکنالوجی اس کو ہائی جیک کرلیتی ہے. انسان کے پاس مہنگی ترین گاڑی ہو لیکن اس نے کہیں جانا نہ ہو تو پھر وہ آوارہ گردی ہی کرے گا،جبکہ جس انسان نے منزل پر پہنچنا ہوتو اگر چہ اس کے پاس کمزور ترین گاڑی بھی ہو وہ اپنا سفر شروع کرلے گا۔وہ آوارہ گرد نہیں مسافر بن جائے گا۔
غلط قدم کا بدترین انجام
انسان سخت ترین مجبور ی کی حالت میں ہو اور اس کے سامنے گناہ کا موقع ہو لیکن وہ خوفِ خدا کرتے ہوئے گناہ سے اپنے آپ کو بچالے تو یہ وقتی آزمائش کسی نہ کسی صورت میں گزر جائے گی اور اس کے بعد اللہ جو اس کو نوازے گا وہ اس کی سوچ سے بھی بڑھ کر ہوگا۔البتہ بعض رستوں کا پہلا قدم ہی اس کا انجام ہوتاہے۔جیسے ہی انسان اس غلط راستے پر قدم رکھتا ہے تووہ پھسل کر گمراہی کے گڑھے میں جاگرتا ہے.
فراڈ کا مطلب یہ ہے کہ کسی انسان کو ایسا سفر شرو ع کروانا جس کے انجام سے اسے بے خبر رکھا جائے۔آج کل کے جتنے بھی غیر اخلاقی تعلقات ہیں اورجنہیں عشق و محبت کانام دیا جاتا ہے،یہ وقتی طورپر بڑے خوبصورت نظر آتے ہیں لیکن ان کاانجام ناقابل بیان تباہی ہوتا ہے۔ان تعلقات کی ابتداء بہترین ملاقات اور خوش گوار کافی کے ایک کپ سے ہوتی ہے لیکن انجام پر ایک بدترین رسوائی منتظرہوتی ہے۔بدقسمتی سے یہ ماحول خطرناک حدتک بڑھ چکا ہے ۔ اس وقت اگر ہم اس بربادی کے متعلق نئی نسل کو آگاہی نہیں دیں گے تو اس سے بڑی بدقسمتی ہمارے لیے اورکیا ہوگی؟
غیر اخلاقی ویڈیوز کی لت
معاشرے کی اخلاقی حالت اس حد تک گرچکی ہے کہ ’’غیر اخلاقی ویڈیوز‘‘دیکھنااس وقت جوانوں کا سب سے بڑ ا نشہ بن چکا ہے ۔یادرکھیں!اس نشے کی لت ہیروئین کی لت سے زیادہ خطرناک ہے ۔جس ملک کے جوانوں کا دماغ ان چیزوں میں مصروف ہو گیا ،وہ نئی دریافتیں اور ستاروں پر کمندیں کیسے ڈالیں گے؟المیہ یہ ہے کہ ہمار ے میزائل توگائیڈڈ ہوگئے لیکن نئی نسل ابھی تک گائیڈڈ نہیں ہوئی۔نئی نسل کو اس بربادی سے بچانے کافریضہ والدین ، ایجوکیشن سسٹم اور منبر پر بولنے والے کا ہے۔اب بھی وقت ہمارے ہاتھ میں ہے۔ہم اگر اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے نئی نسل کو صحیح اور غلط کا شعور دیں،انہیں ٹیکنالو جی کے مثبت استعمال کی ترغیب دیں، انہیں اپنا خلوص اور اپنائیت دیں ، ان کو سنیں اوران کے مسائل کو حل کریں اور سب سے بڑھ کر انہیں قرآن و حدیث سے جوڑیں تو ہم ایک بڑے زوال سے بچ سکتے ہیں لیکن اگر ہم نے ا س فتنے کا سدباب نہیں کیا اور یونہی سب کچھ ٹیکنالوجی کے رحم وکرم پر چھوڑدیاتو یہ ففتھ جنریشن وارہمیں زیر کرتے ہوئے ہم سے ہماری سمت ہی چھین لے گی ،جبکہ یہ بات تاریخ کی دیوار پر جلی حروف میں رقم ہے کہ :
’’جو بھی قوم اپنی سمت کھودیتی ہے تو وہ زوال کی ایسی کھائیوں میں گرجاتی ہے، جہاں سے نکلنا ناممکن ہوتا ہے۔‘‘