The Magic of Positive Words
شریف النفس انسان دوسروں سے ملتے وقت مثبت الفاظ کا استعمال بہت زیادہ کرتا ہے۔ لوگ اچھے جملوں اور اچھے الفاظ کے انتظار میں ہوتے ہیں۔ اگر چند مثبت بول بولے جائیں ، اچھی رائے دی جائے، ہمت بڑ ھا ئی جائے ، غم ہلکا کر دیا جائے یا ہمدردی کا اظہار کیا جائے تو دوسروں کے ذہنوں میں اچھی اور مثبت شخصیت کا تاثر قائم ہوجاتا ہے۔ بندہ لوگوں کے مسائل تو حل نہیں کر سکتا لیکن غم ہلکا ضرور کر سکتا ہے۔ کچھ لوگوں کی مشکلات زیادہ ہوتی ہیں ،ان کے لیے دعا ضرور کی جا سکتی ہے۔ اگر کندھے کے ساتھ کندھا ملایا جائے اور یہ کہہ کر تسلی دی جائے کہ میں تمہارے ساتھ ہوں تو اس سے دوسروں کے کئی غموں کا بوجھ بہت ہلکا ہو جاتا ہے۔
دوسروں کی توجہ حاصل کرنا ایک فن ہے، یہ ہر کسی کو نہیں آتا۔لیکن اِن کے پاس توجہ حاصل کرنے کے لیے مخصوص الفاظ ہوتے ہیں۔ دوسروں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے مثبت اور محبت بھر ے الفاظ کا استعمال کرتے ہیں جیسے بھائی صاحب میری بات سنیے،آپ کی تھوڑی توجہ چاہیے وغیرہ۔ آج دوسروں کی توجہ’’ ہتک آمیز‘‘ الفاظ استعمال کر کے حاصل کی جاتی ہے جیسے’ ’اوئے ‘‘وغیرہ ،ایسے الفاظ سے کوئی بھی اچھا محسوس نہیں کرتا اور نہ ہی اچھا تاثر قائم ہوتا ہے۔ مثبت الفاظ ہی اچھا تاثر قائم کرتے ہیں اور ایسے الفاظ کا استعمال کرنا ہر کسی کو اپنی عادت کا حصّہ بنانا چاہیے۔
شریف النفس انسان کو اپنی حدود و قیود کا علم ہوتا ہے کہ کون سی بات کب ، کہاں اور کیسے کرنی ہے، کس بات میں مداخلت کرنی ہے اور کس بات کو سنبھال کر رکھنا ہے۔ آج معاشرے میں اس قدر بد تہذیبی ہے کہ اگر کہیں دو لوگ با ت کر رہے ہوں توتیسرا شخص درمیان میں مداخلت کرکے باتیں کرنا شروع کر دیتا ہے۔اور بعض دفعہ اگر دو لوگ باتیں کر رہے ہوں توتیسرا شخص ان کو دیکھ کر یہ سوچنا شروع کر دیتا ہے کہ یہ میرے خلاف باتیں کر رہے ہوں گے۔ہمارے معاشرے میں شک اور بدگمانی کی یہ کیفیت بیماری کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ لوگوں کی زبانوں پر شکوے اور شکایتیں بڑھ گئی ہیں۔ لوگوں نے اپنی حددود کو پھلانگنا شروع کر دیا ہے۔ہر شخص کسی دوسرے کے عقیدے اور کسی کی ذات پر رائے دے رہا ہے۔ ہر کوئی خود ٹھیک ہونے کی بجائے دوسروں کو ٹھیک کرنے یعنی تبلیغ کی طرف چل نکلا ہے۔خود پر اسلام نافذ نہیں ہو پا رہا لیکن پور ی دنیا پر اسلام نافذ کرنے کی باتیں کر رہا ہے۔ ہر شخص مفتی ہے اور وہ فتویٰ لگانے کے لیے تیار بیٹھا ہے۔ لیکن شریف النفس انسان یہ مزاج نہیں اپناتا وہ اپنے کام سے کام رکھتا ہے ،وہ اپنے اخلاق اور عمل سے تبلیغ کرتا ہے۔
آپ کی مخالفت آپ کے صحیح راستے پر ہونے کی علامت ہے اور یہ کہ آپ بادِ مخالف پہ چل رہے ہیں۔یہ معاشرے کو بد لنے کی بھی کوشش ہے۔جب حاسد اور بے وجہ تنقید کرنے والے ہوں تو سمجھ جائیں آپ ٹھیک ہیں۔کیونکہ جب تک کوئی خوبی نہیں ہوگی تو کوئی حسد کرنے والا بھی نہیں ہوگا۔ تنقید برائے تنقید اگر موجود ہے تو شکر ادا کریں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو کسی اچھے کام کے لیے منتخب کیا ہے۔ بہترین انسان مخالفت کے سامنے کھڑا ہو جاتا ہے، وہ ڈرتا نہیں ہے وہ فیصلہ کر لیتا ہے کہ میں نے ہمت و حوصلہ سے مخالفت کا سامنا کرنا ہے۔ وہ نہ صرف خود ہمت رکھتا ہے بلکہ ہمت تقسیم بھی کرتا ہے۔
ہر مؤثر شخص میں کچھ ایسا ضرور پایا جاتا ہے جو دوسروں کومتاثر کرتا ہے اور اِس کی کامیابی کا باعث بنتا ہے۔ اس میں کوئی نہ کوئی ایسا روّیہ پایا جاتا ہے،جو اس کو دوسروں سے ممتازبناتا ہے۔ ہم میں سے ہر کسی کواُس روّیے کو تلاش کرنا اور اپنی زندگی میں اپنانا چاہیے۔ جیسے ایک بہترین انسان اپنے سے جُڑے لوگوں کا دوسروں کے ساتھ تعارف بہت اچھے طریقے سے کرواتا ہے جو تعارف سُننے والے کے ذہن میں اچھا تاثر قائم کرتا ہے۔ اور ہمیشہ اس بات کا خیال رکھتا ہے کہ کہیں میر ی وجہ سے کسی کی عزت کم نہ ہو۔ تھوڑا سا جملہ ، تھوڑی سی تھپکی ، تھوڑی سی حوصلہ افزائی کسی کی عزت کو بڑھا سکتی ہے۔ طاقت کے ہوتے ہوئے طاقت کا استعمال نہ کرنا اعلیٰ ظرف انسان کی خوبی ہے۔ جن لوگوں کے لنگر اللہ تعالیٰ کی راہ میں تقسیم ہوتے ہیں،وہ خود سوکھی روٹی کھاتے ہیں وہ بڑے انسان ہیں۔یعنی عاجزی کو قبول کرتے ہیں یہ شیوۂ پیغمبری ہے۔ یہ شریف النفس انسان ہی معاشرے کے بہترین فرد اور انسان ہیں ۔ان کی طرح ہر انسان کو اپنے اندرچھوٹی چھوٹی خوبیوں اور اچھی عادتوں سے تبدیلی لانی چاہیے۔ یہ چھوٹی سی تبدیلی آنے والے دنوں میں بہت بڑی تبدیلی کا باعث بنے گی۔