Who is The Best Teacher?
بہترین استاد کون
(قلم کلامی: قاسم علی شاہ)
جس طرح رزق کا ’’دانہ پانی‘‘ ہوتا ہے اسی طرح علم کا بھی’’دانہ پانی‘‘ ہوتا ہے ۔یہ جس کی قسمت میں لکھا ہوتا ہے ، اس کو مل کر رہتا ہے۔ اگر سیکھنے کے اعتبار سے دیکھا جائے تو جس استاد کے ساتھ نصیب جڑا ہو وہ استاد اچھا بھی لگتا ہے اور اس سے سیکھنے والا متاثر بھی ہوتا ہے۔ بعض اساتذہ بچوں کے لیے آئیڈیل ہوتے ہیں لیکن ہر اُستاد ہر بچے کے لیے آئیڈیل نہیں ہو سکتا۔ ایک بچے کی نظر میں بعض اساتذہ کی مثبت تصویر ہوتی ہے اور بعض کی منفی۔ ایک اچھے استاد کو پڑھانے کا شوق ہوتا ہے اُسے ناصرف اپنی بات کی سمجھ ہوتی ہے بلکہ اپنی بات کو سمجھانا بھی آتا ہے۔ایک استادکی تربیت بچے کی زندگی کی تبدیلی میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ دنیا کی تاریخ میں سب سے بڑی تبدیلی رسول پاکﷺسے آئی،آپ ﷺاستاد تھے۔آپ ﷺکی شان ہے کہ آپﷺنے اُن لوگوں کے کردار کو بدل دیا جوزمانہ جاہلیت میں بیٹیوں کو زندہ دفن کر دیتے تھے۔ آج انہی لوگوں کا ادب سے نام لیا جاتا ہے اور انہیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کہا جاتاہے۔آج ہر کوئی ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے قدموں کی خاک بننا چاہتا ہے۔ یہ ایک استاد کا کمال تھا۔
مائیکل ہارٹ جب ’’The Hundred‘‘ کتاب لکھتا ہے تو حضور اکرمﷺکے نامِ مبارک کو پہلے نمبر پر رکھتا ہے۔ تاریخ میں بڑی بڑی تبدیلیاں اساتذہ کی وجہ سے آئی ہیں ۔یہ ان کے کردار ہی تھے جو تبدیلیوں کا باعث بنے۔ایک انسان کے وژن سے پورا زمانہ بدل جاتا ہے ۔ایک اقبال ؒکا خواب ہوتا ہے اور پاکستان بن جاتا ہے۔
استاد ایک مکمل پیکج ہوتا ہے جو ایک متاثرکن شخصیت رکھتا ہے۔اس میں اخلاقیات ، برداشت،اعلیٰ ظرف اورعلم کے ساتھ ساتھ اپنے مضامین پر عبور جیسی خوبیاں شامل ہوتی ہیں۔ اس کو انسانی نفسیات اور انتھرا پالوجی کا علم ہوتا ہے۔وہ انسانی مزاج سے واقف ہوتا ہے۔وہ جانتا ہے کہ کن بچوں کو دیکھنے سے سمجھ آتی ہے، کن کو سننے سے سمجھ آتی ہے اور کن کو محسوس کرنے سے سمجھ آتی ہے۔ اس کی شخصیت بے ضرر اور دوسروں کے لیے فائدہ مند ہوتی ہے ۔وہ اپنی ذمہ داریاں بخوبی سر انجام دیتا ہے۔
ایک بہترین اُستاد اپنی ذات کے ساتھ ساتھ اپنے بچوں کو بھی دوسروں کے لیے بے ضرر اور فائدہ رساں بناتاہے اور اُن میں خوبیاں پیدا کرتا رہتا ہے۔استاد ایک اچھا موٹیویٹر اور کوچ بھی ہوتا ہے ۔اس کی باتیں سن کر لوگوں کی سوچ میں تبدیلی آتی ہے اور وہ لوگوں کے دلوں پر حکومت کرتا ہے ۔حضرت مولانا روم ؒکے آخری ایام میں کسی نے آپؒ سے کہا کہ آپ اِس دنیا سے رخصت ہو رہے ہیں تو آپؒفرمانے لگے : ’’نہیں میں دنیا کی مسند سے اُتر کر لوگوں کے دلوں کی مسند پر بیٹھنے جا رہا ہوں۔‘‘ اسی طرح بہترین اُستاد بھی ہمیشہ یاد اور دلوں میں زندہ رہتے ہیں۔
نفسیا ت کے مطابق انسان جب کوئی کام کرتا ہے تو چاہتا ہے کہ اس کے عوض کچھ حاصل ہو جو بچوں کی تربیت کے علاوہ معاوضے کی صورت میں بھی ہو سکتا ہے اور اگر معاوضہ زیادہ ہو تو موٹیویشن کا لیول ہائی ہو جاتا ہے اور کبھی بچوں کی تربیت کے صحیح نتائج نہ ملنے یا معاوضہ کم ہونے کی وجہ سے موٹیویشن کا لیول بھی کم ہو جاتا ہے۔آج ایسے بہت سارے اساتذہ ہیں جو لاکھوں میں معاوضا لے رہے ہیں ۔جبکہ ایسے بھی ہیں جن کا بڑی مشکل سے گزارا ہوتا ہے۔ وہ بھی اساتذہ موجودہیں جنہوں نے بہت کم معاوضے سے پڑھانا شروع کیا لیکن اپنے کام میں کوالٹی اتنی زیادہ پیدا کی کہ معاوضہ بہت بڑ ھ گیا۔ جب تک کوئی اپنے آپ کو مہنگا نہیں بنائے گا تب تک مہنگا بِک نہیں سکے گا۔ پڑھانا ایک صلاحیت ہے اگر وہ صلاحیت نہیں ہوگی تو صرف اچھی تعلیم پر اچھا معاوضہ نہیں ملے گا۔ بعض ایسے پڑھے لکھے اساتذہ ہوتے ہیں جو پڑھانے کے لیے سلائیڈز کا سہارا لیتے ہیں ، بعض غصے کا سہارا لیتے ہیں۔ جب بچے پڑھانے کے اس طرح کے طریقہ کار کو دیکھتے ہیں تو ان کے ذہن میں تاثر بیٹھ جاتا ہے کہ استاد ایسے ہی ہوتے ہیں۔ایک جگہ حضرت واصف علی واصف ؒ فرماتے ہیں کہ:
’’استاد کا خوف طالب علم کو علم کی لگن دے سکتا ہے اور اگر یہ خوف حد سے بڑھ جائے تو طالب علم میدان چھوڑ کر بھاگ نکلتا ہے۔‘‘
ایک استاد کو چاہیے کہ اپنی پروڈکٹ کو آسان کرکے بچے کی سمجھ تک لے جائے۔ مثال کے طور پر آئن سٹائن نے جب’’ سپیشل تھیوری آف ریلیٹوٹی ‘‘پیش کی تو د نیا میں تہلکہ مچ گیا ۔ کسی نے آئن سٹائن سے کہا کہ مجھے یہ تھیوری سمجھا دو۔ اس نے بڑے خوبصورت انداز میں سمجھاتے ہوئے کہا کہ اگر آپ ایک خوبصورت لڑ کی کے ساتھ بیٹھے باتیں کر رہے ہوں اورآپ کو باتیں کرتے ہوئے کافی وقت گزر جائے اور آپ سے پوچھا جائے کہ کتنا وقت گزرا تو تمہار ا جواب ہوگا کہ تھوڑا وقت ہی گزر ا ہے لیکن اگر آپ کسی مصیبت کاشکارہیں اور پھر آپ سے پوچھا جائے کہ کتنا وقت گزرا ہے تو آپ کا جواب ہوگا کہ وقت تو جیسے رک گیا ہے ،کیونکہ جب ماحول خوشگوار ہو تو وقت گزرنے کا احساس نہیں ہوگالیکن اگر ماحول تکلیف دہ ہو تو ایک پل بھی صدیوں پر محیط لگے گا۔اِسی طرح ہر سمجھانے والے کے پاس کوئی مثال ، کوئی جملہ یا طریقہ کار ایسا ہونا چاہیے کہ بڑی سے بڑی بات بھی آسانی سے سمجھ آ سکے، جیسے ایک شخص حضرت واصف علی واصفؒ کے پاس آیا اور پوچھا: سر! ہمیں کیسے پتا چلے گا کہ اللہ تعالیٰ ہم سے راضی ہے؟ آپ ؒنے سمجھانے کے بڑے خوبصورت انداز کو اپناتے ہوئے جواب دیا: جتنے تم اللہ تعالیٰ سے راضی ہو اتنا اللہ تعالیٰ تم سے راضی ہے۔
اسی طرح اگر کوئی بھی اُستاد سمجھانے کے آسان طریقہ کار جانتا ہو تو وہ دریا کو کوزے میں بند کر دے گا ، اوراگر کوئی ایساانداز نہیں معلوم تو پھر سمجھانے کے لیے دن بھی کم ہوگا۔
ایک دفعہ حضرت علامہ اقبالؒ اپنے دوستوں میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے کہ ایک دم اٹھے اور بھاگ کر دور کھڑے شخص کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہو گئے پھر تھوڑی دیر بعد ان کو گھر تک چھوڑ کر واپس دوستوں میں آ گئے۔ دوستوں نے پوچھا’’یہ کون تھے؟‘‘ آپ ؒنے جواب دیا: ’’یہ میرے استاد مولوی میر حسن تھے ۔‘‘ دوست کہنے لگے کہ ’’ ان کو دیکھ کرتوآپ جو تا پہننا بھی بھول گئے ‘‘آپؒ فرمانے لگے کہ ’’ان کو دیکھ کر مجھے ہوش ہی نہیں رہا۔‘‘اگر استاد مولوی میر حسن ہو تو پھر شاگر د اقبال بنتا ہے ۔ بد قسمتی سے آج کا اُستاد نہ تو مولوی میرحسن کی خوبیاں اپناتا ہے اور نہ ہی آج کا شاگرد اقبال جیسا بن پاتاہے۔
ہمارے برصغیر کے کلچر میں کلرک کوبادشاہ کہاجاتا ہے ۔اس کے فائل تلاش کرنے یا اس کے دستخط کرنے سے ہی ہر مسئلہ حل ہوجاتا ہے ۔بالکل اسی طرح بے شمار اساتذہ ایسے ہیں جو کلرک بادشاہ ہیں ،یہ وہ لوگ ہیں جن کے ہاتھ میں ’’وائیوا‘‘ چلا جاتا ہے ، نمبر چلے جاتے ہیں وہ طالب علموں کے لیے آسانی پیدا کرنے کی بجائے مشکل پیدا کر دیتے ہیں۔ اگر ان کے ہاتھ میں حاضری چلی جائے، یا نمبر چلے جائیں تو وہ اسی کو حرفِ آخر بنا لیتے ہیں ۔جب اساتذہ ایسی اپروچ اپنائیںگے تو پھر طالب علم بھی ان کی عزت نہیں کریں گے۔
ہر کامیاب شخص کے پیچھے بالعموم کسی استاد کا ہاتھ ہوتا ہے جتنے بھی کامیاب لوگ ہیں وہ کسی نہ کسی سے متاثر ضرور ہوتے ہیں۔ انسان پرکسی کی اتنی نصیحتیں اثر نہیں کرتیں جتنا روّیہ اثرکرتاہے، جیسے حضرت مولانا رومؒ کا بہت مشہور واقعہ ہے کہ وہ اپنی درسگاہ میں پڑھا رہے تھے ۔مولاناکے قریب اِن کی اپنی لکھی ہوئی کتابوں کا ڈھیر موجود تھا اور پاس ہی ایک تالاب تھا کہ وہاں ایک مجذوب(حضرت شمس تبریزؒ) آگیا اور مولانا جلال الدین رومیؒ سے پوچھنے لگا: یہ سب کیا ہے ؟ آپؒ نے کہا: صرف ونحو پڑھا رہا ہوں مگر تمہیں کیا معلوم کہ یہ کیا ہے۔ مجذوب کو اس بات پرغصہ آ گیا اور غصے میں آپ کے قریب پڑی ہوئی کتا بوں کو تالاب میں پھینک دیا۔ جب ہاتھ سے لکھی ہوئی کتابوں کی سیاہی پانی میں تحلیل ہونے لگی تو آپؒ دکھ، تکلیف اور غصے سے کہنے لگے:اے درویش تو نے یہ کیا کیا؟ میری زندگی کی ساری محنت ضائع کر دی۔ یہ سن کر مجذوب نے فوراً تالاب میں ہاتھ ڈال کرکتابوں کو نکالنا شروع کر دیا۔درویش کتاب نکالتا ، اِسے جھاڑتا، کتاب سے گرد نکلتی اور وہ خشک کتاب مولانا کو واپس کرتا جاتا۔یہ دیکھ کر آپؒنے مجذوب سے سوال کیا:بابایہ کیسے ؟ مجذوب نے کہا :تو درس، درسگاہ اورکتابوں کی بات کر، بھرے تا لاب میں کتاب کو خشک رکھنے کے فن کی تجھے کیاخبر۔ یہ کہہ کر وہ مجذوب چل دیا۔
مجذوب کے چلے جانے کے بعد مولانا رومؒ پر ایسی کیفیت طاری ہوئی کہ انہوں نے اپنا درس، درسگاہ اور کتابوں کو چھوڑدیا اور اس مجذوب کی تلاش شروع کر دی ۔ تاریخ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ اس مجذوب کو تلاش کرنے میں آپؒ کو تین سال لگ گئے ۔جب تین سال بعد وہ مجذوب ملے تو آپؒان کے قدموں میں گر گئے اور کہا کہ مجھے آپؒ کو تلاش کرنے میں تین سال لگ گئے ۔ یہ سن کر مجذوب نے جواب دیا: مجھے تمہیں تلاش کرتے ہوئے تیس سال لگ گئے اور تمہیں تو صرف تین سال لگے۔ اِس واقعہ میں ہر اُستاد اور شاگرد کے لیے بہت بڑا سبق پوشیدہ ہے کہ انسان کی طلب صادق ہو تواُس کی تلاش اُسے منزل کے رہبر تک پہنچا دیتی ہے بلکہ منزل کا رہبر خود اُس کی تلاش میں ہوتا ہے۔سچے انسان کے لیے ہر قدم راستہ جبکہ جھوٹے انسان کے لیے ہر قدم گمراہی ہے۔
آج کاالمیہ یہ ہے کہ اُستاد ، ادارے ، اکیڈمیاں ، سکولز صرف نمبر دلا رہے ہیں ان کے لیے فخر کی بات صرف یہ ہے کہ ہمارے طلباء کے +A گریڈ ہیں لیکن وہ طالب علم زندگی میں کتنے مؤثر اور کارآمد ہیں اِس کی کسی کو خبر نہیں ، ان کا مورال کیا ہے، وہ کتنے اچھے پاکستانی ،اچھے انسان ،اچھے بیٹے یا اچھے شہری ہیں؟ ان کی طرف کسی کا دھیان ہی نہیں ہے۔نمبروں کی اہمیت سے انکارنہیں کیا جا سکتا ،کسی اچھے ادارے میں داخلے کے لیے نمبر بہت ضروری ہیں لیکن نمبروں کے ساتھ گرومنگ کرنا بھی استاد کی ذمہ داری ہے۔ اگر استاد اپنے شاگردوں کی اچھی تربیت کر رہا ہے تو پھر وہ بہت بڑا کام کر رہا ہے۔طالب علم نے یاد کر کے جو نمبر اور ڈگریاں لی ہیں وہ بھول جائے گا لیکن اُستاد کی طرف سے دی گئی اچھی عادات اور بہترین روّیہ جیسی خوبیاں ساری زندگی اس کے کام آ ئیں گی۔ اگر استاد شاگرد کا اچھا مزاج بنا دے ، اس کو اچھا اخلاق دے د ے ،اس کے اندر خوبیاں پیدا کر د ے تو یہ اس کے نصیب کو بدل سکتی ہیں۔ استاد کی نگاہ اس قدر طاقت ور ہے کہ شاگر د میں ایسی خوبیاں پیدا کر دیتی ہے جو اُس کا نصیب بدل دیتی ہیں۔بھارت کے صدر عبدالکلام آزاد کہتے ہیں:
’’ کسی انسان کا مستقبل نہیں بدلا جاسکتا لیکن اس کی عادات بدلی جا سکتی ہیں اور وہ عادات اس کے مستقبل کوبدل دیتی ہیں۔‘‘
کسی بھی سسٹم کو ہر وقت اچھے لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے، اگر اچھے لوگ نہ ہوں تو سسٹم نہیں چلتا۔ ہمارے ہاں بہت کم لوگ ایسے ہیں جنہوں نے اپنے شوق سے اس شعبے کا انتخاب کیا ہے۔ زیادہ تر وہ لوگ ہیں جنہیں اپنے شعبوں میں کامیابی نہیں ملی یا جن کے خواب ٹوٹ چکے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ ایک یونیورسٹی میں پڑھنے والا بچہ اپنے استاد سے متاثر ہوتانظرنہیں آتا اسے اپنے استاد کے لیکچر سے اکتاہٹ محسوس ہوتی ہے۔ جب کوئی طالب علم اُستاد کے لیکچراوربات سمجھانے کے دوران سوئے گا تو ناصرف وہ بلکہ اس کا نصیب بھی سو جائے گا۔ آج پڑھنے والا طالب علم اپنے استاد سے اس لیے بھی متاثرنہیں ہے کیونکہ اسے اپنا استاد پرانے زمانے کا لگتا ہے۔ اگر ایک استاد شیروانی پہنے ، سر پرترکش ٹوپی رکھے کلاس میں آئے گا تو آج کا ماڈرن طالب علم جو کمیو نیکیشن پڑھ رہا ہے، اس کے ایک ہاتھ میں لیپ ٹاپ دوسرے میں موبائل ہے تو وہ کیسے متاثر ہوگا؟ استاد کو اپنے لبادے اور اپنے لباس سے استادلگنا چاہیے۔ شعبہ تدریس میں بہتری تب ہی ممکن ہے جب اس میں اچھے لوگ آئیں گے اور اپنے شوق سے آئیں گے۔